منقبت ننگِ انسانیت کو ردا مل گئی چاک داماں کو زرّیں قبا مل گئی پھر سے آئیں وفا کا مرتب ہوا عشق کے آئینوں کو جلا مل گئی نور پھیلا جو کعبے سے تا بہ فلک بحرِ ظلمات میں بھی ضیاء مل گئی پھر براہیمی گلشن میں آئی بہار پھر سے بلبل کو خوش کن نوا مل گئی نغمہ ہائے وفا چار سو گونج اٹھے لحنِ داود کو پھر صدا مل گئی خوش ہے کچھ اس طرح سے زمینِ حرم جیسے صحرا کو کالی گھٹا مل گئی اس کو خوفِ عذاب لحد کیا جسے ابنِ عمران کی خاکِ پا مل گئی اس راضی خدا خوبخود ہو گیا جس کو شاہِ نجف کی رضا مل گئی موت بھی مات اس کو نہ پھر دے سکی جس کو مولا کے در کی ہوا مل گئی ۱۳ رجب ۲۰۰۱ کراچی
اشتراک گذاری در تلگرام